درسِ نظامی دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا عربی و اسلامی علوم کا ایک منظم اور جامع کورس ہے۔ جنوبی ایشیا سے باہر عرب، افریقہ اور دنیا کے دیگر کئی ممالک میں اس طرح کے علوم و فنون پر مشتمل کورس دیگر ناموں سے بھی کروائے جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر درسِ نظامی عالمِ دین بننے کے لئے زبردست معاون کورس ہے۔
”درسِ نظامی“ نام کی وجہ؟
معتبرعالمِ دین، مفسر،محدث، فقیہ، فلسفی اور ایک ممتاز مدرس ملاّ نظام الدین سہالوی رحمۃُ اللہِ علیہ جو 1677ء میں لکھنو کے نواحی علاقے، سہالی میں پیدا ہوئے۔ آپ کو اسلامی علوم و فنون میں مکمل مہارت حاصل تھی، انہوں نے درسیات کی بہترین کتب کو باہم مربوط اور منظم کر کے اس طرح مرتّب کیا، جس سے علومِ عربیہ و اسلامیہ کا ایک جامع اور ہمہ گیر نصاب ترتیب پایا، جو آج بھی تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ دینی مدارس میں رائج ہے۔ان ہی کی نسبت سےیہ کورس ”درس نظامی“ کہلاتا ہے۔ یہ کورس بالخصوص تو جنوبی ایشیا کے مدارس میں درسِ نظامی کے نام سے معروف ہے البتہ دیگر بعض افریقی و یورپین ممالک میں بھی درس نظامی کورس کروایا جاتا ہے۔
درسِ نظامی میں شامل علوم وفنون
درسِ نظامی کے مروجہ نصاب میں 30 سے زائد علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔قرآن و علوم القرآن، حدیث و علوم الحدیث، فقہ و علوم الفقہ، سیرت و فضائل نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، اسلامی عقائد و نظریات، دعوت و ارشاد، تقابلِ ادیان (Interfaith)، تصوف، آدابِ معاشرت (Social Manners)، اخلاقیات (Manners)، فلسفہ (Philosophy)، تاریخِ اسلام، علم التعلیم (Education)، عربی گرائمر، عربی تکلم، عربی ادب، بلاغت (Eloquence)، منطق (Logic)، مناظرہ (Debate) اصول تحقیق وغیرہ جیسے علوم و فنون مختلف درجات (Grades)میں پڑھائے جاتے ہیں۔
ایک انسان کے لئے ضروری علوم:
کوئی بھی ذی شعورشخص اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کیلئے ایمانیات، احکاماتِ الٰہی اور اَخلاق و آداب کا علم سیکھنا انتہائی ضروری ہے جو انسان کی دنیا اور آخرت میں کامیابی کیلئے ناگزیر ہے۔ درسِ نظامی میں تفاسیر و احادیث اور اسلامی عقائد کی کُتب میں ایمانیات سے متعلق تفصیلی تعلیم موجود ہے اور کتبِ فقہ میں حلال و حرام کے مسائل دلائل اور علل کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں۔ کتبِ سیرت اور تصوف کی صورت میں اخلاقیات و آداب سے متعلق زبردست تربیت موجود ہے۔ درسِ نظامی عالمِ دین بننے کیلئے ایک زبردست معاون کورس ہے اور اکابر فرماتے ہیں کہ عالم ہی انسان ہے۔
درسِ نظامی کے ثمرات
11 ویں صدی ہجری میں جب سے یہ نصاب مرتب ہو ا۔ نا جانے کتنے محدثین، مفسرین، مفتیانِ کرام،محققین، مصنفین، مدرسین، مبلغین تیار ہوئے جنہوں نے دینی و سماجی خدمات میں تاریخ رقم فرمائی۔ امامِ اہلِ سنّت، صدرُالافاضل، صدرُ الشریعہ، مفتیِ اعظم ہند، ملکُ العلماء، محدثِ اعظم پاکستان، محدثِ اعظم ہند، مفتیِ اعظم پاکستان، غزالیِ زماں، فقیہِ زماں، فقیہِ اعظم، صدرُالعلماء، صدرُالمدرسین، شیر بیشہ اہلِ سنّت، امیرِ ملت، سفیرِ اسلام، حافظُ الحدیث، شیخُ القرآن، شیخُ الاسلام و المسلمین جیسے القابات سے معروف ہستیوں کی تعلیم کی بنیاد درسِ نظامی کورس ہی ہے۔
اہلِ اسلام کا تعلیمِ مدرسہ پر اعتماد
آج کے ترقی یافتہ دورمیں ماڈرن تعلیم کی شہرت کے باوجود بھی مسلمان اپنے پیچیدہ دینی مسائل کی شرعی راہنمائی کیلئے مدرسے کے مفتی صاحب پر ہی اعتماد کرتا نظر آتا ہے۔
درسِ نظامی اور جامعۃُ المدینہ
علمِ دین کی اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظر عاشقانِ رسول کی عالمی دینی تحریک دعوتِ اسلامی نے 1994ء میں درسِ نظامی کا آغاز کیا اور اس کیلئے پہلےجامعۃُ المدینہ کا قیام پاکستان کے شہر کراچی میں کیا گیا۔ یہ بانیِ دعوتِ اسلامی امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے خلوص کا ثمرہ ہے کہ اب دنیا کے 14ممالک میں گیارہ سو سے زائد برانچیں ہو چکیں ہیں جن میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اِنْ شآءَ اللہ اضافہ ہو تا رہے گا۔
متعدد شعبہ جات کے لئے اہل افراد کی تیاری
جامعۃُ المدینہ اب تک 19501سے زائد فاضلینِ درسِ نظامی ملک و ملت کو پیش کرچکا ہے جن میں سے بڑی تعداد ملک و بیرونِ ملک دین و ملت کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔
کنزُالمدارس اور درسِ نظامی
حکومتِ پاکستان کی وزارتِ تعلیم و فنی تربیت نے 2021ء میں دینی تعلیمی بورڈ بنام ”کنزُ المدارس“ کی منظوری دی۔ کنزُ المدارس بورڈ کے اراکین نے دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی عمران عطاری مَدَّ ظِلُّہُ اور اراکینِ شوریٰ، مفتیانِ کرام اور سینیئر اساتذۂ کرام سے مشاورت کے بعد یہ طے کیا کہ جس طرح ہمارے اکابرِ زمانہ اور حالات کے پیشِ نظر درسِ نظامی کے نصاب میں کچھ نہ کچھ ترامیم فرماتے رہے موجودہ دور کے تقاضوں کے پیشِ نظر کنزُالمدارس کے بورڈ کے تحت بھی درسِ نظامی کے نصاب کو اَزسرِ نو مرتب کیا جائے۔ یہ کام کنزُ المدارس کے نصابی بورڈ کو سپرد کیا گیا، نصابی بورڈ نے بڑی محنت سے مفتیانِ کرام، ماہرینِ تعلیم اور سینیئر مدرسین کی مشاورت سے درسِ نظامی کے نصاب میں کچھ ترامیم کرکے اسے دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
رکن شوریٰ ابو اسيد حاجی محمد جنید عطاری المدنی